Thursday 28 January 2016

عالم اسلام : حالتِ جنگ میں 5 2015 Jul


آج کل پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں وہ مصائب و آلام کا شکار ہیں ۔ مسلمان ممالک جو امن و آشتی کا گہوارہ تھے آج ان میں کوئی ذی روح دہشت گردی اور انتہا پسندی سے محفوط نہیں ان ممالک میں امن و امان کی حالت ابتر ہو چکی ہے ۔پہلے طالبان نے افغانستان کو اپنا نشانہ بنایا ، پھر پاکستان میں خودکش دھماکے کروائے گئے ۔اور اب داعش کا وجود مشرقِ وسطی ٰ کے ان ممالک میں جو معاشی لحاظ سے کچھ بہتر ہیں ، میں دہشت کی علامت بن چکا ہے ۔ داعش نے اپنی کاروائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں بہت حد تک اپنا کنڑول مستحکم کر لیا ہے ۔ پاکستان ہے تو اس میں طویل عرصے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا دور جاری ہے ۔پورے ملک میں دہشت گردوں نے بم دھماکوں ، خود کش حملوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں نے امن و امان تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ چاہے وہ پشاور، وانا ہو ، سوات ہو ، راولپنڈی ہو ، یا روشینیوں کا شہر کراچی یہاں تک کہ دارلحکومت کا جڑواں شہر راولپنڈی تک ان حملوں سے محفوظ نہیں ۔الغرض پورا ملک ہی دہشت گردی کی اس وبا کا شکار ہو چکا ہے ۔ خود کش حملوں کی ذمہ داری اکثر و بیشتر تحریک طالبان پاکستان ، یا تحریک طالبان نے قبول کی ۔ بھتہ خوری ، دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ عام ہے ۔ یہاں کے عوام کے دن رات اس فکر میں گزرتے ہیں کہ جانے کب یہ دن ان کی زندگی کا آخر ی دن ہو ؟۔رینجرز نے کراچی میں آپریشن کرکے یہاں امن و امان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے فوج نے کئی آپریشن شروع کیے ۔جن میں آپریشن راہِ راست اور آپریشن ضربِ عصب قابلِ ذکر ہیں ۔اس آپریشن کے ذریعے پہلے سوات ، بونیر کو دہشت گردوں سے پاک کیا اور اب فوج وانا اور شمالی وزیریستان میں ان قوتوں سے نبرد آزما ء ہے ۔ اس جنگ میں ہم نے چالیس ہزار کے قریب فوجیوں، اور نہ جانے کتنے ہی بے گناہ افرادجن میں بچے بوڑھے ، جوان ، عورتیں سبھی شامل ہیں کو کھو دیا ۔کئی بار ایسا ہوا کہ شیعہ علماء کو شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد سنی علماء کو ۔ جس کا مقصد اسلام کے ان دو گرہوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی کوشش تھی ۔ صد شکر کہ ان کاروائیوں کے باوجودان دونوں گرہوں کے درمیان تصادم نہ ہوا ۔ دونوں فرقوں کی جانب سے عقلمندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملک فرقہ پرستی کی جنگ سے محفوظ رہا اور کئی قیمتی جانیں بچ گئی ۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں ان گنت گھرانوں کے چراغ گل ہوئے ، ان گنت ماؤں کے لختِ جگر خون میں نہلائے گئے ، ان گنت بہنوں نے بیوگی کی چاریں اوڑھی ۔ان حالات نے جہاں پاکستان کے مکینوں کی زندگیوں میں آنسو بھر دئیے وہاں اس دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت پر اتنے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ ملکی معیشت دیوالیہ کے قریب پہنچ گئی ۔
اگر مشرق وسطی ٰ پر نظر دوڑائیں تو یمن میں سعودی عرب کی جانب سے حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا گیا ۔سعودی عرب کے مطابق حوثی باغیوں ( داعش ) نے اپنی مسلحہ کاروائیوں سے کئی علاقوں میں اپنی پوزیشن نہایت مضبوط کر لی تھی ۔ سعودی عرب کی مسلحہ کاروائیوں کی وجہ سے ایک جنگ شروع ہوگئی اس جنگ میں ایران ، یمن اور سعودی عرب شامل ہوگئے ۔ اس جنگ کے اثرات یہ ہوئے کہ یمن میں موجود نہ جانے کتنے ہی بے گناہ مسلمان گھرانے تباہ ہو گئے ۔ ملکی معیشت کو بے حد نقصان پہنچا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں داعش نے سعودی عرب میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ سعودی عرب تمام مسلمانوں کے لیے قابلِ احترام سرزمین ہے ۔سعودی عرب ایسا ملک ہے جس میں اس قسم کی کوئی کاروائی پہلے نہیں کی گئی ۔ دہشت گردی کی یہ کاروائی اس وقت کی گئی جب سعودی عرب نے ہمسایہ ملک یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی شروع کی جب عراق اور شام میں داعش نے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ داعش( دولتِ اسلامیہ، عرب میں کام کرنے والی مسلحہ جماعت ) نے ماضی میں سعودی عرب میں مقیم شیعہ گروہ کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے چکی تھی۔ان کاروائیوں کا پہلا حدف سعودی عرب کے مشرقی صوبہ ق طیف کی ایک شیعہ مسجد تھی ۔جس میں نمازِ جمعہ کے دوران ایک شیعہ مسجد میں بم دھماکہ کیا گیا جس میں قریبا ۲۰ کے قریب لوگ شہید ہو گئے اور ان گنت زخمی ہو گئے جنھیں قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ۔واضع رہے کہ جس علاقے ق طیف میں یہ کاروائی کی گئی ہے وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے ۔ ایسا ہی ایک اور خودکش حملہ ریاض میں کیا گیا ۔ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ۔ شیعہ مسجد پر جمعہ کی نماز کے دوران خودکش حملے کا مقصد سعودی عرب کے عوام میں پھوٹ ڈالنے اور شعیہ سنی فسادات برپا کروانے کی ایک مظموم سازش ہے ۔
آئیے ذرا غور کیجیے ! یہ تحریکِ طالبان ، تحریک طالبان پاکستان اور داعش ہیں کیا ؟یہ وہ مسلحہ گروپ ہیں جو کہ مسلمان ریاستوں ، جس میں افغانستان ، پاکستان ، عراق ، ایران، شام ، اور اب سعودی عرب میں اپنی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔ زیادہ تر خودکش حملوں میں یہی گروہ ملوث ہوتے ہیں اور بعد میں حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے پیں ۔اسلام دشمن قوتیں ان گرہوں کی مالی امداد ، اسلحہ کی سپلائی کر رہی ہیں ۔اگرچہ یہ گروہ خود کو مسلمان کہتے اور مسلمانوں کا سا حلیہ اپناتے ہیں ور مسلمان تنظیموں ہی کے طور پر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تاہم ان کا ٹارگٹ بھی مسلمان ہی ہیں ، بجائے اس کے کہ یہ اسلام کی ترویج کے لیے کام کریں یہ مسلمانوں ہی کے جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی خدا کے نام لیوا۔ دونوں جانب خون تو مسلمان کا ہے ۔نقصان اسلام کا ہے ۔ اپنے مقاصد میں ان گروہوں کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ یہ تمام کاروائیاں ان ممالک میں نظامِ ا سلامی نافذ کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کو ، نماز ادا کرتے ہوئے ، سکولوں کو تباہ کرکے ، بازاروں میں کاروبار کو تباہ کرکے اسلامی نظام کس طرح سے لایا جاسکتا ہے ؟ درحقیقت یہ وہ گروہ ہیں جن کا مقصد اسلام کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ ان گرہوں کی وجہ سے اسلام کی نہ صرف ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ان گنت بے گناہ مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔اس قسم کی کاروائیوں سے فائدہ اسلام دشمن عناصر اٹھاتے ہیں ۔ایک مسلمان ملک کا معاشی نقصان کرکے اس ملک کی معیشت کو تباہ کرکے اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہی نہیں ۔
حال ہی میں ایک انٹر ویومیں بھارت کے وزیر دفاع نے کہا کہ اب تحریک طالبا ن پاکستا ن سے وہ کام نہیں لیں گے بلکہ مشرقِ وسطی ٰ میں موجود دہشت گردوں سے کام لیں گے ۔ اس کے اس بیان سے یہ بات تو واضع ہو گئی کہ بھارت کی ایجنسیاں ، اور خود بھارتی حکومت تحریک طالبان پاکستان کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں اور اب جبکہ افواجِ پاکستان نے اپنی ان تھک کوششوں سے پاکستان تحریک طالبان پاکستان کا زور توڑ دیا ہے اس لیے اب وہ بھارت کے لیے اہم نہیں رہے ۔اب اسلام دشمن عناصر کی توجہ کا مرکز داعش ہے ۔اسلام دشمن قوتیں پوری دنیا میں موجود مسلمان ملکوں کو کمزور کرنے کے لیے ان تحریکوں کا سہارا لے رہی ہیں ۔ جہاں بھی مسلمانوں میں کوئی کمزوری نظر آتی ہے وہاں یہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد گرہوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر کی کمزوریوں کو دور کریں ۔تاکہ کوئی اسلام دشمن قوت مسلمانوں کے بیچ رخنہ نہ ڈال سکے ۔اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر ہمیں ایک پلیٹ فارم پرآنا چاہیے ۔ صرف اتحاد ہی وہ واحد قوت ہے جو اسلام کو دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment