Saturday, 23 January 2016

اپریل فول
از طرف : میمونہ صدف
"ٹرن ، ٹرن ۔"۔فون کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی صالحہ کچن میں کام کر رہی تھی ۔تیز تیز قدم اٹھا کر فون تک پہنچی ۔
"اسلام علیکم ! "حسب معمول فون اٹھاتے ہی کہا
"وعلیکم اسلا م ۔آنٹی ایک بری خبر ہے ۔" مخاطب کا لہجہ اور آواز انجانی سی تھی ۔لیکن بری خبر کا سن کر وہ بھول ہی گئی کہ وہ اس شخص کو نہیں جانتی کیا بات ہے ۔"بیٹے ۔کیسی بری خبر۔"اس نے فکر مندی سے کہا................
"آنٹی آپ کی بہن کا انتقال ہو گیا ہے ۔۔"کہنے والے نے انتہائی سنجیدہ آوازمیں کہا
"کیا؟۔۔۔۔۔"دوسری جانب پھر وہی جملہ دھرایا گیا ۔صالحہ کا ہاتھ کانپا ۔اور وہ کسی کٹے ہوئے شہ تیر کی طرح دھڑام سے زمین پر گری ۔اس کے ہاتھ سے کرڈل چھوٹ کر ہوا میں معلق ہو گیا ۔
"امی ۔ امی ۔۔۔کیا ہوا ؟" اس کا بیٹا جو ابھی کالج سے گھر آیا تھا ۔ بھاگ کر آیا ۔اس کو جنجھوڑ نے لگا ۔ لیکن وہ ایک بے جان مورت کی مانند آنکھیں بندکیے فرش پر پڑی تھی ۔ اس نے ماں کو اپنی بازوں میں اٹھا یا اور باہر کی جانب بھاگا ۔ اسے جلد از جلد ماں کو ہاسپٹل پہنچانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز ہوا بیری کے درخت پر لگے پتوں اور بیروں کو جنجھوڑ جنجھوڑ کر گرا رہی تھی ۔درد سے چیختے درخت شور مچا رہے تھے ۔اور ان کی ٹہنیاں یوں چٹخ رہی تھی جیسے کسی کی موت پر نوحہ کناں ہوں ۔یا کئی غم زدہ عورتیں کسی کی موت پر بین کر رہی ہوں ۔ عالیہ کا دل کسی سہمے ہوئے بچے کی مانند حلق میں آگیا ۔کچھ انہونی ہونے کو تھی ۔ اسی سمے اس کے فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔۔
"ہیلو۔۔" اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی
"خالہ ۔۔ امی کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔پلیز پہنچیں ۔ہم امی کوہسپتال لے کر جا رہے ہیں ۔"۔اس کے بھانجے کی پریشان آواز اور روح فرساء خبر ۔اس کو ایسا لگا جیسے اس کا دل بند ہو جائے گا ۔وہ حیرانی سے ماوتھ پیس کو دیکھنے لگی ۔بے یقینی کی سرحد پر کھڑی عالیہ کو وقت کا احساس تک نہ تھا ۔ وقت جیسے تھم گیا تھا ۔
"عالیہ ! کیا ہوا ۔۔"۔ اس کے شوہر کی آواز گویا اسے دنیا میں واپس لے آئی تھی۔" وہ صالحہ کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے ۔وہ اسے لے کرہسپتال گئے ہیں ۔۔" وہ جیسے عالم خواب میں بات کرر ہی تھی ۔الفاظ اس کے حلق میں کسی گولے کی طرح پھنس رہے تھے ۔
"تو پھر یوں کٹھر ی کیوں ہو ۔ چلو۔"اس کے شوہر نے اس کو کہا ۔۔تیز گاڑی چلاتے ہووہ چند لمحے بعد ہسپتال میں تھے ۔سفید کفن جیسے لباس میں لپٹی صالحہ جس کا گندمی رنگ سیاہی مائل ہو چکا تھا ۔ونٹیلیڑکے ذریعے سانس لیتی آنکھیں بند کیے وہ جیسے اسی کا انتظار کر رہی تھی ۔
"صالحہ !یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے ۔" عالیہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے ۔چند آنسو صالحہ کے چہرے پر بھی گرے ۔آنسوؤں کا گرنا گرنا تھا کہ صالحہ نے آنکھیں کھولی ۔"عالیہ ۔عالی" بمشکل اس کی آواز نکلی۔"صالحہ دیکھو میں آ گئی ہوں ۔دیکھو۔" عالیہ کے دل میں صالحہ کی زندگی کی امید جاگ گئی ۔ "عالی ۔۔"۔ ایک لفظ اور زیر لب کلمہ طیبہ ۔صالحہ اپنی زندگی کی حد پار کر گئی ۔اس کی کھلی آنکھیں خلاء میں اپنے وجود کو تک رہی تھی۔
"صالحہ یہ تم نے کیا کیا ؟۔" اس کا ہاتھ پکڑے عالیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا گویا سیلاب رواں تھا ، آواز غم میں گم۔۔۔ ہسپتال کا عملہ سب کو بے حسی سے پیچھے ہٹاتا ہوا صالحہ کوبے جان سہاروں سے آزاد کر کے کفن میں لپیٹ رہا تھا ۔وہ پاس کٹھری اس بے جان وجود کو جو اس کی بہن تھی بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ، وہ جو اس کے ساتھ ہمیشہ رہی تھی آج خاموشی سے اس کا ہاتھ چھڑا کر چل دی تھی ۔ ساری کائنات اس کی موت پر نوحہ کنا ں تھی۔ہرطرف گویا ایک کہرام برپا تھا ۔ اس کہرام میں وہ لڑکا بھی کھڑا تھا جو صالحہ کا کچھ نہیں لگتا تھا صرف ایک پڑوسی تھا جو ان کا نمبر جانتا تھا۔جس کی ایک کال نے عالیہ سے صالحہ کو ، دو بچوں کی ماں کو ان سے چھینا تھا ۔وہ ضمیر کا مجرم ، خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا ، اس افراتفری کے عالم میں نہ تو کسی نے اس پر دھیان دیا تھا ۔ سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا تھا کہ صالحہ کا نروس بریک ڈاون کیوں ہوا ۔اس کو لگ رہا تھا کہ یہ ایک مذاق ہو گا ۔ایک جھوٹ ، جس کو بعد میں یاد کر کے وہ خوب ہنسیں گے ۔لیکن اس ایک جھوٹ نے صالحہ کی جان لے لی تھی عالیہ جو صالحہ کے بے جان وجود سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی ، بچھڑنے کا غم ، لحد میں اتر جانے کا غم ، بچپن کی دوست کے چلے جانے کا غم ، اس کو پاگل کیے جا رہا تھا ۔ اور وہ مذاق کرنے والا خاموش کھڑا اس تمام منظر کو دیکھتے ہوئے خود سے پشیماں ہو رہا تھا کہ اسی وقت اسے ایک دھچکا لگا کہ وہ قاتل تھا ۔ ایک احساس جرم نے اس کو اپنی لپیٹ میں لی لیا ۔ اب اسے اسی احساس جرم کے ساتھ ساری زندگی جینا تھا ۔ دنیا کی عدالت سے محفوظ لیکن اپنے ضمیر اور اﷲ کی عدالت سے بچنے سے قاصر۔
Back to Conversion Tool

No comments:

Post a Comment